درد کے سمندر میں
سکھ کے چند جزیرے ہیں
کچھ نظر تو آتے ہیں
کچھ نظر سے اوجھل ہیں
ہم جو اس سمندر میں
دیر سے غوطہ زن ہیں
درد میں بہتے جاتے ہیں
درد کو سہہ ناں پاتے ہیں
جو جزیرہ ہم جانیں
سراب بن کے اٹھتا ہے
آنکھ کو چھپکتے ہی
دور ہوتا جاتا ہے
درد کے سمندر میں
سکھ کے چند جزیرے ہیں
دوست جو لپکتے ہیں
دوستی کے ناطے سے
اک لہر سی اٹھتی ہے
مجبوریاں آڑے آتی ہیں
اور وہ یونہی ہم سے
روٹھ کے منھہ پھیر لیتا ہے
پانیوں کی شورش میں
دب کے بیٹھ جاتا ہے
درد کے سمندر میں
سکھ کے چند جزیرے ہیں
ہم جو ایک مدت سے
درد کے تھپیلوں پہ
آس سے تہی ہو کر
دم بخود سے بیٹھے ہیں
اب سمجھ میں آئی ہے
درد کے سمندر میں
آس کا جزیرہ ہی
سکھ بن کے آتا ہے
باقی سب کے سب رشتے
رات کی تاریکی میں
کشتیوں کی مانند ہیں
آتے جاتے رہتے ہیں
روشنیاں دکھاتے ہیں
لیکن چند ہی لمحوں میں
دور ھوتے جاتے ہیں
درد کے سمندر میں
سکھ کا ایک ہی جزیرہ ہے
قدسیہ شاہ
8th April 2009
سکھ کے چند جزیرے ہیں
کچھ نظر تو آتے ہیں
کچھ نظر سے اوجھل ہیں
ہم جو اس سمندر میں
دیر سے غوطہ زن ہیں
درد میں بہتے جاتے ہیں
درد کو سہہ ناں پاتے ہیں
جو جزیرہ ہم جانیں
سراب بن کے اٹھتا ہے
آنکھ کو چھپکتے ہی
دور ہوتا جاتا ہے
درد کے سمندر میں
سکھ کے چند جزیرے ہیں
دوست جو لپکتے ہیں
دوستی کے ناطے سے
اک لہر سی اٹھتی ہے
مجبوریاں آڑے آتی ہیں
اور وہ یونہی ہم سے
روٹھ کے منھہ پھیر لیتا ہے
پانیوں کی شورش میں
دب کے بیٹھ جاتا ہے
درد کے سمندر میں
سکھ کے چند جزیرے ہیں
ہم جو ایک مدت سے
درد کے تھپیلوں پہ
آس سے تہی ہو کر
دم بخود سے بیٹھے ہیں
اب سمجھ میں آئی ہے
درد کے سمندر میں
آس کا جزیرہ ہی
سکھ بن کے آتا ہے
باقی سب کے سب رشتے
رات کی تاریکی میں
کشتیوں کی مانند ہیں
آتے جاتے رہتے ہیں
روشنیاں دکھاتے ہیں
لیکن چند ہی لمحوں میں
دور ھوتے جاتے ہیں
درد کے سمندر میں
سکھ کا ایک ہی جزیرہ ہے
قدسیہ شاہ
8th April 2009
Comments